Orhan

Add To collaction

بھیگی پلکوں پر

جب ساز کی لے بدل گئی تھی
وہ رقص کی کون سی گھڑی تھی
اب یاد نہیں کہ زندگی میں
میں آخری بار کب ہنسی تھی
وہ سنجیدہ تھا اس کے لہجے میں سلگتی محبت کی آنچ کی تھی ، ایک لو تھی ، ایسی لو جو اس بھیگے موسم میں بھرپور حدت لئے ہوئے تھی ، پری کی زبان گنگ ہو گئی۔ دل پر عجیب گرانی سی چھانے لگی کہ دل کا مقفل دروازہ کمزور ہونے لگا تھا اور وہ نہیں چاہتی تھی ایسے ہی کسی کمزور لمحے کی زد میں آکر وہ کمزور پڑ جائے۔
پلکوں پر منوں بوجھ پڑ گیا تھا پھر اس کی آنکھیں بھی برسات کا ساتھ دینے لگیں ، آنسو اس کے رخساروں سے موتیوں کی مانند پھسلنے لگے۔
”مائی گاڈ…“ طغرل نے کار اسٹارٹ کرتے ہوئے گہری سانس لے کر کہا۔
”مجھے سمجھ نہیں آتی تمہارے پاس میری ہر بات کا جواب آنسوؤں میں کیوں ہوتا ہے… میں نے ایسی کیا بات کہہ دی جو تم رونے بیٹھ گئی ہو؟“ اس کے لہجے کی شوخی جھنجلاہٹ میں بدل گئی تھی۔


پری نے کوئی جواب نہیں دیا تو وہ تواتر سے بہنے والے آنسوؤں کی یلغار سے نبٹنے کی سعی کر رہی تھی۔ یہ آنسو کیوں بہہ رہے تھے؟ کیا وجہ تھی وہ خود سمجھ نہیں پائی تھی ، بس دل تھا کہ مضطرب تھا۔
”پارس! کیا ہوا ہے آخر میں نے ایسا کیا کہہ دیا جو تم اتنا رو رہی ہو؟“ اس بار اس کے لہجے میں گمبیھر تھکن اتر آئی تھی۔ وہ ہونٹ بھینچے ڈرائیو کر رہا تھا ، وہ پری سے بہت کچھ کہنے کا سوچ کر آیا تھا۔
پری دو ہفتوں سے گھر سے دور تھی اور یہ دو ہفتے اس نے بڑی بے چینی و بے قراری میں گزارے تھے ہر لمحہ اس کو جذبات کی شدت اور پری کی محبت کے احساس سے مانوس کرتا جا رہا تھا۔
آج ان ہی شدتوں سے گھبرا کر وہ دادی کی اجازت کے بنا ہی اس کو لینے پہنچ گیا تھا اور وہ تھی کہ اس کے جذبوں سے نا آشنا آنسو بہائے جا رہی تھی۔ اس کا ہر آنسو طغرل کے دل پر بدگمانی کے بوجھ کو بڑھا رہا تھا وہ سوچ رہا تھا کہ محبت میں وہ درد اور اثر نہیں ہے جو پری کی نفرت کو بدل سکے وہ اس سے نفرت کرتی تھی اور کرتی رہے گی۔
دونوں کے درمیان ایک خاموشی حائل ہو گئی تھی پری اپنے من میں ابھرنے والے نوزائیدہ جذبوں کو ختم کرنے کی کوشش میں منہمک تھی۔ ماں باپ کی ناکام محبت و زندگی اس کیلئے کبھی نہ بھولنے والے صدمات تھے ان کی تمام محرومیاں اس کے حصے میں در آئی تھیں یہ کرب اس کو سہنا پڑتا تھا جو وہ سہنے کی عادی ہو گئی تھی مگر اب کسی کی محبت پر اعتبار کرنا اس کیلئے ممکن نہیں رہا تھا۔
طغرل کی محبت پر بھی اس کو یقین نہیں تھا۔ اس کے چہرے پر اب بھی گہری سنجیدگی تھی گیٹ پر کار روک کر وہ گلاس ڈور سے باہر دیکھنے لگا ، پری نے ایک نگاہ اس کی طرف دیکھا اور اس کے سرد و سپاٹ رویے کی خفگی کو محسوس کیا مگر لب خاموش رہے وہ جیسے ہی ڈور کھول کر باہر نکلی طغرل زن سے کار بھگا لے گیا چند لمحے تو یونہی ساکت گزر گئے کہ بارش کی تیزی نے اسے گیٹ کی طرف قدم بڑھانے پر مجبور کر دیا چوکیدار گیٹ وا کر چکا تھا۔
پورٹیکو میں کھڑی لینڈ کروزر دیکھ کر وہ سمجھ گئی شہریار اندر موجود ہے اس وقت وہ اس سے ملنے کے موڈ میں نہیں تھی بارش سے بچتی ہوئی کوریڈور کے دوسرے دروازے سے وہ اپنے اور دادی کے مشترکہ کمرے کی طرف بڑھ گئی۔
”بی بی جی! آپ آ گئیں۔“ خیرون نے اسے دور سے دیکھتے ہی خوشی سے بھرپور آواز میں کہا اور لمبے لمبے ڈگ بھرتی اس کے قریب آ گئی۔
”ہاں میں آ گئی ، تم کیسی ہو خیرون؟“ اس نے مسکرا کر پوچھا۔
”ایک دم فرسٹ کلاس بی بی جی! بالکل بھلی چنگی ہوں ، شکر ہے آپ آ گئیں ، اب گھر میں رونق ہو گی۔ میں تو جی آپ کے جانے سے بڑی بور ہو گئی تھی ، اماں جان بھی خاموش اور اداس رہنے لگی تھیں ، عائزہ بی بی بھی بار بار آپ کا پوچھتی تھیں کہ آپ کب آئیں گی اور وہ…“ اس نے دانستہ زبان دانتوں تلے دبا کر بات ادھوری چھوڑی تھی بڑا معنی خیز سا انداز تھا اس کا پری نے چونک کر پوچا۔
”عائزہ آئی ہوئی ہے…؟“
”ہاں جی عائزہ بی بی آج ہی تو آئی ہیں ، ڈرائنگ روم میں شیری صاحب اپنی ممی کے ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں سب لوگ وہاں موجود ہیں۔“ خیرون نے اسے تمام تفصیل بتائی تھی۔
”اچھا ابھی تم ان کو میری موجودگی کا مت بتانا میں ابھی ریسٹ کرنا چاہتی ہوں ، سر میں درد ہو رہا ہے۔“ اس نے آہستگی سے دروازہ کھول کر اندر داخل ہوتے کہا تو وہ اس کا بیگ اٹھا کر اندر رکھتے ہوئے بولی۔
”میں نہیں بتاؤں گی لیکن آپ کا سارا چہرہ کیوں لال ہو رہا ہے ، درد بہت ہو رہا ہے بی بی جی! میں طغرل صاحب کو فون کر دوں؟“
”ارے نہیں ، طغرل بھائی کو فون کیوں کرو گی؟“ وہ بیڈ پر بیٹھ کر سینڈل اتارتی ہوئی عام سے انداز میں گویا ہوئی۔
”طغرل صاحب ہی تو ہیں جو آپ کا سب سے زیادہ خیال رکھتے ہیں ، آپ یہاں نہیں تھیں تو وہ بہت پریشان اور کھوئے کھوئے رہتے تھے۔
“ خیرون نے سر گوشیانہ لہجے میں مسکرا کر کہا تھا۔
”دماغ درست ہے تمہارا ، کیا بکواس کر رہی ہو ، تم کو احساس ہے؟“ اس کا دل بے ساختہ دھڑک اٹھا تھا وہ نہیں چاہتی تھی طغرل کی دیوانگی اس کی رسوائی بن جائے اس نے خیرون کو ڈانٹ کرکے کمرے سے نکال دیا تھا۔
###
جانے الفت کہاں کھو گئی ہے راستے کی دھول میں
وفا کی خوشبو رہی نہیں اب چاہت کے پھول میں
محبت کی وادی میں کھا آئے ہیں دیوانے دھوکے اکثر
محبت اب رہی نہیں محبت کے اصول میں
اعوان اس کو جلد ہی ہوش میں لے آیا تھا اور ہوش میں آتے ہی اس نے قریب بیٹھے اعوان سے التجائیہ انداز میں کہا تھا۔
”گلفام کیسا ہے… میرے امی ، ابو ، چچا چچی کیسے ہیں؟ میرے اس طرح آنے کے بعد ان پر کیا گزری… کس طرح سے ان سب نے اس رسوائی کو برداشت کیا؟ وہ غریب تھے مگر عزت میں بہت بڑا مرتبہ رکھتے تھے۔“ اعوان کے سپاٹ چہرے پر اس کی کسی التجا کا اثر نہ ہوا تھا وہ اطمینان سے بیٹھا سگار کا دھواں اڑا رہا تھا۔
”خدا کے واسطے اعوان! مجھے بتاؤ میرے گھر سے جانے کے بعد ان پر کیا گزری… وہ سب خیریت سے تو ہیں؟“ وہ اس کے پاؤں پکڑ کر گڑگڑانے لگی تو اس نے کراہت آمیز انداز میں اس کے ہاتھوں کو دور جھٹکا اور غرایا۔
”اب کیا فائدہ ان باتوں سے تم ان لوگوں سے مل سکو گی یہ سب تمہاری بھول ہے ماہ رخ! جس دلدل میں تم قدم رکھ چکی ہو اس دلدل سے فرار ناممکن ہے ، یہاں تم مر جاؤ گی ، فرار نہیں پا سکو گی۔“
”میں یہاں سے فرار پانا بھی نہیں چاہتی ، اب زندگی میرے لئے سزا ہے اور اس سزا کو میں آخری سانس تک بھگتنا چاہتی ہوں۔“
”مجھے کوئی پروا نہیں ، بھگتو تم جیسی لالچی و بدکردار لڑکی کو بھگتنا بھی چاہئے ، میں تم سے کوئی ہمدردی کے جذبات نہیں رکھتا بلکہ تم سے اس حد تک گھن آ رہی ہے مجھے… میں تمہیں اس قابل نہیں سمجھتا کہ چند لمحے تمہارے قریب میں گزار سکوں۔
“ اس کی زبان سے سنگ باری جاری تھی اس کی روح گھائل ہو رہی تھی اس کا اس قدر ہتک آمیز رویہ اس کے دل کو زخمی کر رہا تھا لیکن وہ سن رہی تھی گڑگڑا رہی تھی۔ اس سے ہاتھ جوڑ کر التجائیں کر رہی تھی کہ وہ جو چاہے ظلم و ستم کرے مگر اس کے گھر والوں کے متعلق بتا دے اس کے منہ سے اپنوں کا ذکر سن کر اس کے اندر ایسی اپنائیت کی آگ بھڑکی تھی کہ وہ جاننے کیلئے دیوانہ وار اس کی منتیں کر رہی تھی۔
”میرے سامنے یہ اداکاری نہ کرو ، میں جانتا ہوں تم کتنی بڑی اداکار ہو مجھ سے زیادہ تم کو کوئی نہیں جان سکتا۔ میں تم کو کچھ نہیں بتاؤں گا ، قطعی نہیں بتاؤں گا یہ میں خود سے وعدہ کرتا ہوں۔“ اعوان کے لہجے میں سخت بے رحمی اور قطعیت تھی وہ صوفے پر بیٹھا تھا ، اس کی تمام توجہ اپنے سگار کی طرف تھی۔
ماہ رخ کسی بے قرار پرندے کی مانند کمرے میں چکرا رہی تھی بہت سعی کی اس نے اعوان کو منانے کی ، اس کو ساحر خان کا اصل چہرہ دکھانے کی مگر وہ اس سے کچھ اس طرح منحرف و بدظن ہوا تھا کہ اس کی کوئی بات سننے کا روا دار نہ تھا۔
”خدا کیلئے مجھ پر ترس کھاؤ اعوان! میں نے جو کیا اس کی سزا مجھے مل رہی ہے میں جس کرب و اذیت میں گرفتار ہوں ، اس تکلیف کا احساس تم کسی طرح بھی نہیں کر سکتے ، میرے اپنوں کا حال بتا کر میری اس تکلیف میں تم کچھ کمی کر سکتے ہو ، میرے زخموں پر مرہم رکھ سکتے ہو۔“ وہ پھر مجبوراً اس کی منت سماجت پر اتر آئی تھی اس کے قدموں میں بیٹھ گئی ، اعوان نے حقارت سے اس کو ٹھوکر ماری اور پھر وہاں سے چلا گیا۔
###
وہ پری کو گھر ڈراپ کرکے بزنس کے سلسلے میں ہونے والی میٹنگ اٹینڈ کرنے کے ارادے سے نکل تو گیا تھا مگر موسم کے تیور بالکل ہی بدل گئے تھے تواتر سے گرنے والی بوندوں نے موسلا دھار بارش کا روپ دھار لیا تھا اور ماحول میں بادلوں کی گھن گرج عروج پر تھی ، اس نے کال کرکے میٹنگ کینسل کر دی تھی۔ گھر جانے کو دل پھر بھی آمادہ نہ ہوا تھا وہ بے مقصد سڑکوں پر کار دوڑاتا رہا ، وہ ایک عجیب اداسی آمیز اضطراب کا شکار ہو گیا تھا اس کی محبت میں پل پل بے قرار و بے چین رہا تھا عجیب بات یہ تھی کہ وہ نظروں کے سامنے رہتی تو دل از حد سکون و طمانیت محسوس کرتا تھا وہ نہیں تھی تو اس کا تصور رہتا تھا ، اس کی یاد کسی چراغ کی مانند دل کو دھیرے دھیرے سلگانے لگی تھی اور آج تو بے قراری اتنی بڑھی تھی کہ وہ اسے لینے خود ہی پہنچ گیا تھا۔
دادی جان کا تو صرف بہانہ تھا جب کہ دل کو اس کے قرار نہ تھا اور وہ بڑی بے دردی سے اس کے جذبات کو مجروح کر چکی تھی اسی ادھیڑ بن میں وہ معید کے پاس چلا آیا۔ معید نے بڑی گرم جوشی سے اس کا استقبال کیا تھا۔
”آہا… آج تو میرے آفس کے نصیب جاگ گئے بڑے لوگوں نے قدم کیسے رکھ دیا یہاں پر؟“ وہ اس سے گلے ملتا شوخی سے گویا ہوا۔
”باتیں مت بناؤ ، تم مجھ سے بھی بڑے ہو گئے ہو ، تم کو کال تک کرنے کی فرصت نہیں ملتی ، تم کو کسی کی پروا ہی نہیں ہے۔
“ وہ اس سے علیحدہ ہوتا جتانے والے انداز میں سنجیدہ لہجے میں بولا۔
”اوہ گاڈ! خیریت تو ہے نا؟ اتنے بھیگے بھیگے موسم میں خوب آگ برساتا ہوا لہجہ ، پری سے لڑائی وڑائی ہو گئی ہے کیا؟“ وہ مسکراتا ہوا معنی خیز لہجے میں گویا ہوا اور اس کے سامنے چیئر پر بیٹھ گیا اس کی آنکھوں میں شرارت رقصاں تھی۔
”ہونہہ لڑائی… اس سے دوستی ہی کب ہے جو لڑائی ہو گی۔
“ پری کے ذکر پر اس کی پیشانی پر شکنیں نمودار ہوئی تھیں۔
”اوہ تمہارا لہجہ بتا رہا ہے معاملہ کچھ گڑ بڑ ہے شیور ، پری سے ہی تمہاری کوئی فائٹ ہوئی ہے۔ اس نے ابھی تک تمہارے جذبوں کی پذیرائی نہیں کی ہے… اس کو تمہاری محبت پر یقین نہیں آیا؟“ معید اس کی سنجیدگی دیکھ کر اپنی شوخی برقرار نہیں رکھ سکا تھا۔
”یقین… اونہہ لگتا ہے مر کر بھی اس پتھر دل لڑکی کو یقین نہ دلا پاؤں گا ، مجھے حیرت ہوتی ہے خود پر میں کس طرح پارس کی محبت میں گرفتار ہو گیا ہوں۔
پارس… وہ لڑکی جو اس عمر سے مجھے ناپسند تھی جب پسند نا پسند کا سینس بھی نہیں ہوتا ہے۔“
”اور اب یہ حال ہے کہ تم اس کے بغیر رہنا بھی گوارا نہیں کر سکتے ، ایسا ہی ہوتا ہے میری جان جس سے ہم زیادہ ناپسندیدگی و بے اعتنائی برتتے ہیں درحقیقت ہماری پسند و چاہ کی انتہا اسی ہستی سے وابستہ ہوتی ہے میں جانتا ہوں تم نے ہمیشہ پری کو کوئی اہمیت نہیں دی ہے وہ تمہارے مخالف لوگوں میں شامل رہی ہے۔
“ معید سنجیدگی سے گویا ہوا۔
”میں جانتا ہوں ، مت بتاؤ مجھے ، صرف یہ بتاؤ اب میرا لائحہ عمل کیا ہونا چاہئے؟ میں نے کچھ زیادہ ہی اپنی عزت نفس کی توہین کر دی ہے پھر بھی ناکام و نامراد ہی رہا ہوں ، میں اس کی بد دماغی و اکڑ زیادہ دن برداشت نہیں کر سکوں گا ، حد ہوتی ہے ہر بات کی۔“ نامعلوم وہ معید کو سنا رہا تھا یا خود کو تسلی دے رہا تھا۔ معید نے کچھ سوچتے ہوئے اثبات میں سر ہلا دیا۔

   1
0 Comments